تمام فنون کا بنیادی مقصد انسان کے جمالیاتی فکر کی آئینہ بندی کرنا ہے۔ فنکاروں کو خوب سے خوب تر کی تلاش رہتی ہے۔ ان کی خلاق فطرت انہیں مائل بہ پرواز رکھتی ہے۔ وہ ایک فن پارے کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسر ا تخلیق کرنے کے عمل میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کا تخلیقی کرب انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے شعرا کے سماجی، سیاسی، اصلاحی اور جمالیاتی رجحانات پر مقدمہ شعر و شاعری میں کھل کر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے ایک فارسی شعر کے ذریعے شاعروں کی خوب سے خوب تر کی جستجو کو یوں ظاہر کیا ہے:برائے پاکئی لفظی شب بروز آردک که مرغ و ماهی باشند خفته او بیداراور یہ بھی کہا ہے کہ شعرا اپنے فن کو کانٹ چھانٹ کے عمل سے پختہ تر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے جذبے اور افکار انہیں ہمہ وقت جمالیاتی قدروں کے حصول کے لیے متحرک رکھتے ہیں۔ عرفان مرتضی شعر و ادب اور فن کی دنیا میں نو وارد نہیں ہیں انہوں نے اپنی پینٹنگز ، شاعری اور نثر کے سیاق و سباق میں بڑے پیمانے پر پذیرائی سمیٹی ہے۔ ان کی تصانیف سلگتی ریت پر سجدہ (غزلیں)، دھنک کے رنگ اور تم (نظمیں)، تصویریں ( تصوراتی مکالمات) ، پرانے گھر کے موسم اور چند ا نے انہیں ادبی دنیا میں منفرد مقام عطا کیا ہے۔ ان کی عرفان اُردو رائیٹر ز سوسائٹی نے امریکہ کے علاوہ دنیا بھر میں دھوم مچارکھی ہے۔ وہ ایک عمدہ نظم گو بھی ہیں۔ ان کی زیر نظر کتاب مکالمات عرفان کے فلیپ میں لکھا ہے کہ وہ اپنی نظموں
" جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا " ، " اب بھی ایسا ہو تا ہو گا " اور " پرانے گھر کے موسم " کے لیے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔
مکالمات عرفان، عرفان مرتضی کے تصوراتی مکالمات کا دوسرا مجموعہ ہے۔ کار تخلیق تصورات طلب ہے۔ تصورات نہیں ہوں گے تو فن کا سراغ بھی نہیں ملے گا۔ مکالمات عرفان، مصنف کے عمیق مطالعوں کی دستاویز ہے۔ انہیں سقراطی یا افلاطونی مکالموں کی صورت بھی نہیں دیکھا جا سکتا کہ وہ مجرد فلسفوں کی روشنی میں مرتب ہوئے تھے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان مکالموں میں فکر سے پہلو تہی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ مکالمے شاعروں اور مصنفوں کے چنیدہ فکری معاملات و تجربات کی روشنی ہی میں تخلیق ہوئے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یہ دو اقتباس ملاحظہ ہوں :
اِقتباس نمبر ۱” میں نے دروازے کی بیل بجائی تو افتخار عارف صاحب نے دروازہ کھولا۔ وہ کسی کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھے۔ انہوں نے بات کرتے ہوئے مجھے گھر کے اندر آنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ساتھ فون پر بات ختم کرتے ہوئے خدا حافظ کہنے لگے اور پلٹ کرکچن کی جانب چلنے لگے۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ان کے کچن میں ہی آگیا، جہاں چار کرسیاں اور ایک خوبصورت سی ٹیبل پر کچھ پھول رکھے ہوئے تھے۔ افتخار صاحب نے مجھے وہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور خود ایک گلاس لے کر فرج سے ٹھنڈا پانی نکالنے لگ گئے ۔ فون پر انہوں نے کئی بار خدا حافظ کہنے کی کوشش کی لیکن دوسری جانب سے بات کرنے والے کو فون رکھنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ آخر کار وہ خدا حافظ کہنے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔ فون سائیڈ پر رکھتے ہوئے پانی کا گلاس میری جانب بڑھا دیا۔میں نے پوچھا، خیریت تو ہے ؟ آپ آج گھر میں اکیلے کیسے ؟“۔ افتخار عارف مسکرائے اور کہا:
ہمیں خبر تھی کہ اک روز یہ بھی ہونا ہے
کہ ہم کلام کریں گے کوئی سنے گا نہیں
میں نے کہا، آپ کو سامعین کی کیا کمی ہے ، آپ کا ایک سامع تو آپ کے سامنے بیٹھا ہے ، جو کچھ بھی سُنانا ہو ، مجھے ہی سُنالیں۔ افتخار صاحب ہنسنے لگے اور کہا،’’ دوسروں کو تو صرف اشعار ہی سنا سکتا ہوں، تمہیں تو بس کھری کھری سنانے کا دل چاہ رہا ہے‘‘۔ میں نے کہا،’’ ارے ارے ایسا کیوں ؟ ‘‘۔ افتخار عارف نے کہا ،’’کتنے دن بعد ملنے کے لیے آئے ہو، اور وہ بھی جب میں نے خود کال کر کے تمہیں بلایا تو تمہیں ملنے کا خیال آیا‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’افتخار صاحب ! اب عرفان اِتنی آسانی سے تو آنہیں سکتا‘‘۔ افتخارعارف نے کہا :
بہت اترار ہے ہو دل کی بازی جیتنے پر
زیاں بعد از زیاں بعد از زیاں کیسا لگے گا
’’میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ:
کریں تو کس سے کریں نارسائیوں کا گلہ
سفر تمام ہؤا، ہم سفر نہیں آیا
میں نے کہا ’’ ابھی ۔۔ سفر کہاں تمام ہؤا؟ ۔۔۔ ابھی تو زندگی کی کہانی کا آغاز ہؤا ہے ، ابھی تو سلسلہ در سلسلہ در سلسلہ چلتا رہے گا، کسے کیا معلوم کہ ہماری زندگی کی کہانی کے کسی موڑ پر کیا ہو ؟ ۔۔ کون سے نئے مراحل کا سامنا کرنا پڑے اور کن کن لوگوں سے تعلقات قائم ہوں گے یا ختم ہو جائیں گئے‘‘ ۔ افتخار عارف نے کہا،’’ صحیح کہتے ہو عرفان میاں تمہارا اور میر ایہی حال ہے کہ:
کہانی جب نظر آتی ہے ختم ہوتی ہوئی
وہیں سے ایک نئی داستان بناتے ہیں
اور ویسے بھی اب تو میری:
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
اِقتباس نمبر ۲۔بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے بس میرے سامنے سے دُھول اڑاتی ہوئی یوں بھاگی کہ جیسے میں اس بس سے ، یابس کے ڈرائیور سے کوئی قرضہ مانگ لیتا۔ آواز بھی دی ، ہاتھ بھی بلایا، مگر بس نہ رکی۔ اب دوسری بس کے انتظار میں مجھے بس اسٹاپ پر نجانے کتنی دیر ٹھہر نا ہو ، یہ سوچ کر میں نے چاروں جانب نظر دوڑائی تو ایک چھوٹا سا چائے خانہ نظر آگیا۔ میں چائے تو پیتا نہیں تھا، سوچا چلو ا گرمی کا اور وقت کا فائدہ اٹھایا جائے اور کوکا کولا یا ایسے ہی کسی مشروب سے خود کو سیراب کرلوں۔ یہ سورچ کر میں سر جھکائے اُس چائے خانے کی جانب چلنے لگا۔ یک دم کوئی شخص میرے سامنے آگیا۔ میں نے جلدی سے دائیں جانب ہو کر اس شخص کو راستہ دینا چاہا لیکن وہ بھی مجھے راستہ دینے کے لئے اُسی طرف ہو گیا۔ تھوڑی دیر کو یوں لگا کہ جیسے ہم ایک دوسرے کو ڈاج دینے کی کوشش کر رہے ہوں۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو یقین ہی نہ آیا ، وہ اور کوئی نہیں احمد فراز تھے۔ ایک عرصے بعد انہیں یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر مجھ سے کچھ کہا نہ گیا، بس انہیں دیکھتارہ گیا، تو انہوں نے کہا:
پھٹی پھٹی ہوئی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ مجھے
تجھے تلاش ہے جس شخص کی وہ مر بھی گیا
ماورا پبلیکیشنزکے سی ای او خالد شریف نے یہ کتاب انتہائی محبت سے شائع کی ہے۔ اس میں احمد فراز ، اختر سعیدی، اصغر گونڈوی، آصفہ نشاط ، افتخار عارف، امیر مینائی، بشیر بدر ، پروین شاکر ، پیر زاده قاسم، جوش ملیح آبادی، جون ایلیا، حمیر ارحمن، حنیف اخگر ، حیدر علی آتش، خمار بارہ بنکوی، دلاور فگار، رفیع الدین راز ، سعد یه حریم سلیم فوز، سلیم کوثر، ظہور الاسلام جاوید، عبد الحمید عدم، عرفان مرتضی، قمر جلالوی، کلیم عاجز، مسرور جاوید ، مشتاق یوسفی، مصطفی زیدی، مقسط ندیم ، رومی نقاش، یاس یگانہ چنگیزی سے تصوراتی مکالمے کیے گئے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ ان کی بنیاد شعرا، اور مصنفوں کی مزاج شناسی پر رکھی گئی ہے۔ یہ مزاج شناسی عرفان مرتضی کی اس جوہر شناسی کی نقیب ہے کہ جس تک انہیں ان کے مشاہدوں، مطالعوں اور تجزیوں نے پہنچایا ہے۔ وہ چاہتے تو اپنے منتخب کر دہ شاعروں اور نثر نگاروں پر تنقیدی مضامین یا خاکے لکھ دیتے ۔ لیکن انہوں نے اپنی اس کتاب میں تصوراتی بیانیوں کو ساختیاتی اصول بنایا ہے۔ اسی لیے اس میں قاری کو فکشن کے بیانیے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ رواں نثر میں لکھے گئے یہ بیانیہ آمیز مکالمے عرفان مرتضی کی تخلیقی ایج کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
کچھ میرے قلم سے“ کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں:چند سال قبل مرحوم جاذب قریشی نے پوچھا تھا کہ بھئی عرفان تمہاری نئی کتاب کب آرہی ہے؟“۔ میں نے ہنس کر ٹالنا چاہا اور کہا، چار کتابیں لکھ کر کون سا تیر مار لیا ہے جو ایک اور کتاب لکھوں۔ جاذب قریشی بولے اور کہا، وہی تیر جو میں نے پینتیس کتا ہیں لکھ کر مارا ہے۔ پھر بارہ سال کے وقفے کے بعد غزلوں کی کتاب سلگتی ریت پر سجدہ آگئی لیکن ساتھ ساتھ تصوراتی مکالمات لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ تصوراتی مکالمات کی پہلی کتاب تصویریں 2005 میں شائع ہوئی تھی، اور اب میں سال بعد مکالمات کی ایک اور کتاب آپ سب کے سامنے ہے۔ روایتی انداز کے مضامین سے ہٹ کر یہ تصوراتی مکالمات شاعر کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں کسی قلم کار کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات حتی کہ جائے پیدائش بھی اس کے اسلوب سے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔ یہ اسلوب ہی ہے کہ جو لوگوں سے اس قلم کار کا تعارف کرواتا ہے اور اسے دوسروں سے زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ میں نے مکالمات عرفان " میں اپنی کتاب " تصویریں کی طرح لکھنے والوں کے تعارف ان کے اشعار اور الفاظ سے گفتگو کشید کر کے آپ کی قیمتی بصارتوں کو امانتا پیش کیے ہیں۔ ہر قلم کار سے مختلف موضوعات پر گفتگو اور کچھ خاص و عام باتیں ، سوالات اور ان کے جوابات کا یہ سلسلہ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ ایک زمانہ تھا کہ قلم اور میرے رشتہ میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں لیکن پھر سوچا کہ اللہ تعالیٰ انسان کو کسی بھی قسم کی دولت علم یا ہنر صرف اور صرف دوسروں میں بانٹنے کے لیے عطا کرتا ہے۔ اس لیے دوبارہ قلم میں الفاظ بھر کے لکھنا شروع کر دیا اور پھر ایسا لگا کہ جیسے قلم نے مجھے اور میں نے قلم کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ اس کتاب میں جن لوگوں کے ساتھ مکالمات شامل ہیں، ان سب کا دُنیائے سخن میں ایک نمایاں مقام ہے۔ میری کوشش یہی رہی ہے کہ لکھنے والوں کی شخصیت سے زیادہ، ان کے کلام کو اُجاگر کیا جائے اور اس طرح ان کی شخصیت خود بخود ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔“
مکالمات عرفان میں عرفان مرتضی کے بیانیے سادہ ہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ کہیں سادہ اور
پُر کار ہیں۔ ان میں تصوارتی ملاقاتیں ، گفتگو ، بحث و مباحثہ ، نوک جھونک اور سوال جواب پر توجہ صرف ہوئی ہے۔ اور شعروں کے انتخاب نے مصنف کی نیک نامی میں اضافہ کیا ہے۔ اس کتاب میں تمثیلی بیانیوں سے بھی کام لیا گیا ہے۔ تمثال سازی، تصور تراشی اور تخیل پیمائی کی بنیادوں پر استوار ہونے والی تخلیقات عمومی ادب پاروں کی سطح سے کئی درجے بلند ہوتی ہیں۔ اس سیاق و سباق میں غالب کے اس شعر کی معنویت کا تناظر بدل جاتا ہے:ہوں گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوںنا آفریده گلشن میں نشاط تصور کی گرمی سے نغمہ سنج ہونے کا عمل تخلیق گلشن کا باعث بنتا ہے۔ اس میں عندلیب اور اس کی نغمہ سنجی بھی مجر رہے اور گلشن بھی۔ شاعر نے اسے اپنے لفظوں کی سحر کاری سے ٹھوس شکل عطا کر دی ہے۔ انسانی دانش کی تمامتر مفروضاتی اور قیاسی منطق تصور ، تخیل اور تمثالوں کی رہین منت ہے۔ اس تناظر میں دیو تا تراشی کے صنمیاتی عمل سے لے کر بگ بینگی سائنسی مفروضاتی کہانی تک انسانی تصور کی برقیاتی پروازوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں جہاں مشاہدے کی آنکھوں کی نیلگوں سماواتی سرحدوں کا آغاز ہو جاتا ہے وہاں مفروضاتی مشاہدوں کے طلسم کدے عود عود کر سامنے آنے لگتے ہیں۔ یہ سلسلے بھی نشاط تصور کی گرمیوں کا پر تو لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں کالرج کے تصور متخیلہ کی اہمیت بھی کسی طور کم نہیں ہو سکتی۔ پھر اپنے شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد کے تخیلاتی محاکموں سے کسی صورت چشم پوشی ممکن نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے تو ماضی کے تاریخی شواہد کی روشنی میں تصوراتی حال اور تخیلاتی مستقبل کے سنہری ادوار کی کامل نقشہ کشی کی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے جاوید نامہ میں چند جید شخصیات سے تصوراتی ملاقاتیں کی ہیں۔ علامہ کی چشم تصور نے مختلف افلاک پر مختلف روحوں سے مکالمے کیے ہیں۔ ان میں رومی، گوتم ، زرتشت، مسیح ، محمد صل الله السطائی، ( وادی طواسین ) فلک عطارد پر اقبال جمال الدین افغانی ، سعید حلیم پاشا کی روحوں کی زیارت کرتے ہیں۔ اور دین و وطن ،۔ اشتراک و ملوکیت ، شرق و غرب، محکمات عالم قرآنی خلافت آدم ، حکومت الہی، ارض ملک خداست ، ۔ حکمت ۔ خیر کثیر است، جیسے موضوعات زیر بحث لاتے ہیں۔ فلک زہرہ پہ وہ چشم تصور سے خدایان اقوام قدیم کی مجلس دیکھتے ہیں۔ اس میں بت بعل ، فرعون لارڈ کشنر اور درویش سوڈانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ فلک مریخ پر وہ شہر مرغدین میں گھومتے ہیں۔ نبیہ مریخ کا ذکر کرتے ہیں۔ فلک مشتری پر اقبال کی چشم تصور حلاج ، غالب و، قرۃ العین طاہرہ کی ارواح جلیلہ سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ وہ بطور فلسفی اور عالم کے ان ارواح بزرگ کے سامنے اپنی مشکلات رکھتے ہیں۔ یہاں ان کے روبرو ابلیس بھی آتا ہے اسے وہ خواجہ اہل فراق کا نام دیتے ہیں۔ فلک زحل پر انہیں وہ ارواح رذیلہ نظر آتی ہیں جنہوں نے ملک وملت سے غداری کی۔ یہاں انہیں قلزم خونیں نظر آتا ہے جس میں ملک ہندوستان کی روح نالہ و فریاد کرتی دکھائی دیتی ہے۔۔ آں سوے افلاک وہ حکیم المانوی نقشہ کی روح کو دیکھتے ہیں۔ پھر وہ امیر کبیر حضرت سید علی همدانی اور ملا طاہر غنی کشمیری اور بھرتری ہری کی روحوں کا دیدار کرتے ہیں۔ کاخ سلاطین مشرق میں وہ نادر شاہ احمد ابدالی اور ٹیپو سلطان شہید کی روحوں کے روبرو آتے ہیں۔ جاوید نامہ کے آخر ناصر خسرو علوی مستانہ غزل سنا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ یوں اقبال پیغام سلطان شہید بہ رود کاویری میں حقیقت حیات و مرگ و شہادت بیان کرتے ہیں ۔ وہ اس مثنوی میں خود کو زندہ رود کا نام دیتے ہیں اور فردوس بریں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ”ادب میں خیالی مکالمے ایسے کرداروں کے درمیان ہونے والے مکالمے ہوتے ہیں جو منظر میں جسمانی طور پر موجود نہیں ہوتے یا وہ فوت شدہ یا خیالی بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ مکالمے مختلف شکلیں لے سکتے ہیں اور ادبی کام کے اندر مختلف مقاصد کو پورا کر سکتے ہیں۔اندرونی بیجہتی والے مکالمے: ایک کردار اپنے خیالات، احساسات اور فیصلوں کو دریافت کرتے ہوئے اپنے آپ سے گفتگو میں مشغول ہوتا ہے۔ جیسا کہ خود عرفان مرتضی نے اپنے آپ سے مکالمہ کیا ہےتصوراتی ویژن کی روشنی میں لکھے گئے مکالمے : یہ ادبی اور ، تاریخی شخصیات، یا خوابوں یا خوابوں میں ان کے تخیل کے تصورات کے ساتھ تعامل کر سکتے ہیں۔ یادداشتیں: ایک کردار ماضی کی گفتگو کو یاد کرتا ہے، اکثر جذبات اور بات چیت کی اہمیت کو زندہ کرتا ہے۔ فرضی گفتگو: کر دار ممکنہ نتائج یا تنازعات کو تلاش کرتے ہوئے مستقبل کی بات چیت کا تصور یا توقع کر سکتے ہیں۔ بے جان اشیاء یا تجریدی تصورات کے ساتھ مکالمے: کر دار اشیاء، فطرت، یا موت یا وقت جیسے تجریدی خیالات کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہو سکتے ہیں۔ تصوراتی مکالمے کسی کردار کے اندرونی خیالات ، محرکات اور تنازعات کو ظاہر کر سکتے ہیں، جو ان کی شخصیت میں گہری بصیرت فراہم کرتے ہیں۔ یہ مکالمے نئی معلومات متعارف کرواسکتے ہیں، تنازعات کو حل کر سکتے ہیں۔ عرفان صاحب نے اپنی چنیدہ شخصیات کی منتخب کردہ تخلیقی جہتوں کی روشنی میں تصوراتی مکالمے کیے ہیں۔ ان میں ان کے اپنے خیالات اور نقطہ نظر کے ذریعے محبت ، انسان دوستی، شناخت ، یا اخلاقیات جیسے پیچیدہ موضوعات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے یہ تصوراتی مکالمے قارئین کی مطالعاتی لگن کو دو چند کرتے ہیں۔ ان میں عرفان صاحب نے پانیوں میں منفر د تخلیقی عنصر شامل کیا ہے۔